Monday, 9 May 2011

نداے شاھی میں رابطہ قیام کرنے کے لیئں - شکریہ

    


** ندأے شاھی **
دینی و اصلاحی ماہنامہ 
 مرتب : مفتی محمد سلمان 
منصورپوری
رابطہ : ٣٥١٥٤ ٩٤١٢٦ ٩١+
** N I D A - E - S H A H I **
' Monthly ' 
* An Valuable-Improvable Islamic Magazine *
Edited & Published  by:
Mufti Mohammad Salmaan 
Mansoorpuri
Contact : +91 94126 35154 

 موجودہ شمارہ 
FEB 2012  ** فروری ٢٠١٢ 

نداے شاھی میں آپکا دلی استقبال ہے.
** دین کے مطابق آپکی اصلاح و رہنمائی ہی ہمارا مقصد **
****************************************************
NIDA-E-SHAHI - Cordially Welcome You !
****************************************************
Your Improvability according the Rules & Lights of ISLAM is Our Motive !
*****************************************************
                                                                                                                 

|
|

Mailling Address:
Jamia Qasmia Madrsa Shahi,
Lal Bagh & Bartan Bazar(Mandi Chowk)
MORADABAD-244001
U.P (INDIA)

(*)
(*)
(*)

ندا ے شاہی ماہانہ دینی و اصلاحی رسالہ

*خود ممبر بنیں اور دوستوں کو بهی بنایں .
   
For Yearly Subscription Fee (ھدیہ) Please mail us:
nidaeshahi@gmail.com    

or 
Call / SMS : 
( Note : Always call 8 am to 4 PM - SMS any Time )
  برائے مہربانی کال ہمیشہ صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک ہی کریں 
کسی وقت بھی کر سکتے ہیں sms 
+91 94564 22390 
email : ajmalqasmi786@gmail.com          
 with

 Your full Postal Address 
ask for our Bank Account Number.
|
   
 -:  ماں  :-



Health & Sunnat



ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

 دو نوجوان  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص  کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر یہ ہے وہ شخص!
سیدنا عمر ان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے؟
یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل  کیا ہے۔
کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟ سیدنا عمر پوچھتے ہیں۔
سیدنا عمر اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟
وہ شخص کہتا ہے : ہاں امیر المؤمنین،  مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ۔
کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
یا عمرؓ، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے  ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔
پھر تو قصاص دینا  پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔  سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
 نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کسقدر  شریف خاندان  سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی  معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیا ہے!! کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے  پر عمرؓ کو  روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ  قاتل کی حیثیت سے آ  کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
 وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس  جانے دیجیئے تاکہ میں انکو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔
سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں: کون تیری ضمانتدے گا کہ تو صحراء  میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو  ایسا نہیں ہے جو اسکا  نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے، خیمےیا  گھر  وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔
کون ضمانت دے اسکی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا  زمین کے ٹکڑے  یا کسی اونٹ کے سودے  کی ضمانت کا معاملہ ہے؟  ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔
اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض  کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔
محفل میں موجود  صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمر ؓ  بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت  نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟  یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا  جائے؟  واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!
خود سیدنا   عمرؓ  سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں  ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو۔
نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔
عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟
ابو ذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔
چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔
عمرؓ: جانتے ہو اسے؟
ابوذرؓ: نہیں جانتا اسے۔
عمرؓ: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟
ابوذرؓ: میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔
عمرؓ: ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔
امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔
سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر  واپس آنے کیلئے۔
اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت  شہر میں  (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔
ابو ذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔
مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذرؓ مختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا  ہونے جا رہا ہے؟
یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا  مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں  اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
مغرب سے چند لحظات پہلےوہ شخص آ جاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔
عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا!
امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو  پرندوں کے چوزوں کی طرح  صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔
سیدنا عمرؓ نے ابوذر کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟
ابوذرؓ نے کہا، اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ابلوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔
سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔
سیدناؓ عمر اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔
اے ابو ذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔
اور اے شخص،  اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔
محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔


--------------------------------------------


اللہ کی ذات میں بحث کرنا منع ہے


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ! لوگ تجھ سے برابر سوالات کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ سوال کریں گے کہ یہ تو اللہ ہے (جس نے مخلوق بنائی) تو اللہ کو کس نے بنایا ہے؟” ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک چند دیہاتی میرے پاس آئے اور بولے: ”یہ تو اللہ ہے (جس نے مخلوق بنائی) تو اللہ کو کس نے بنایا ہے؟” ابوسلمہ راوی حدیث کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی مٹھی میں کنکریاں لے کر ان پر پھینکیں اور فرمایا: ”اٹھو اٹھو میرے پیارے نے سچ فرمایا تھا”۔
(مسلم
)
فائدہ:۔
شیطان انسان پر جن مختلف طریقوں سے حملہ آور ہوتا ہے اور وساوس میں مبتلا کرتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ پہلے وہ دماغ میں سوالات کا ایک سلسلہ قائم کرتا ہے اور نہایت سادگی سے ایک اصول ذہن میں بٹھا دیتا ہے جس میں بظاہر کوئی غلطی نظر نہیں آتی۔
بات سیدھی سادھی اور سچی ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ نظر آرہا ہے وہ مخلوق ہے یعنی تخلیق کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جب ہر چیز مخلوق ہے تو اس کا کوئی خالق بھی ہوگا۔ یہ ایسی آسان بات ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے اس کا سمجھنا ذرا مشکل نہیں ہے۔ جب یہ بات مان لی کہ ہر چیز کا کوئی خالق ہے تو پھر اللہ کے لیے بھی کوئی خالق ہونا چاہیے۔ حالانکہ یہ بظاہر معقول نظر آنے والا سوال درحقیقت بالکل غلط ہے اس لیے کہ اللہ اسی کو کہتے ہیں جو سب کا خالق ہو اور وہ کسی کی مخلوق نہ ہو۔ اسی طرح کے خیالات کو وسوسہ کہتے ہیں۔ انسان کی عقل کا دائرہ کار مخلوق ہے نہ کہ خالق۔ انسان ہمیشہ معلوم سے نامعلوم کی طرف بڑھتا ہے۔ لیکن اللہ کی ذات ایک ایسی ذات ہے کہ جس کے متعلق کوئی کتنا ہی عقل کو دوڑائے سوائے شکوک و شبہات کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جب اس نے خود فرما دیا کہ اس کی مثل کوئی نہیں ہے (القرآن)۔ تو پھر انسان اپنی محدود عقل کے ساتھ اس کو کیسے پاسکتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ہونا بالکل واضح اور حق ہے۔
امام ابوحنیفہ کے حوالے سے ایک قصہ مشہور ہے کہ ان کا واسطہ کچھ ایسے لوگوں سے پڑگیا جو اللہ کے وجود سے انکاری تھے اور انہوں نے حضرت امام سے اس بات پر مناظرہ طے کرلیا۔ وہ ملحدین کی جماعت تو طے شدہ وقت پر مقام مناظرہ پر پہنچ گئی لیکن امام صاحب دیر سے پہنچے۔ ان ملحدوں نے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کی جس کا امام صاحب نے جواب دیا کہ راستے میں ایک دریا پار کرنا پڑتا ہے اور اتفاق سے جس وقت میں اس کے کنارے پر پہنچا تو کوئی کشتی نہ تھی کہ دریا پار کیا جاسکے۔ اتنے میں یہ ہوا کہ دریا کنارے جو درخت تھا وہ خودبخود زمین پر گرگیا۔ اور خودبخود اس کے ٹکڑے ہونے لگے اور پھر ان ٹکڑوں سے خودبخود تختے بننے لگے اور پھر وہ ٹکڑے بھی خودبخود جڑنے لگے اور کیا ہوا کہ تھوڑی دیر میں ایک کشتی تیار ہوگئی اور میں نے اس میں بیٹھ کر دریا پار کرلیا۔ ایک ملحد نے جواب دیا کہ اس بےسروپا بات کا کون یقین کرے گا۔ جواباً حضرت امام صاحب نے فرمایا کہ جب ایک چھوٹی سی کشتی کے خودبخود بننے کا تم یقین نہیں کرتے تو آخر تمہاری عقل اتنی بڑی کائنات کہ جس کا ایک ایک حصہ ایک نظم اور اصول کا پابند ہے۔ نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے نہ دن رات سے پہلے، یہ موسموں کا اپنے اپنے وقت پر آنا جانا، یہ سورج چاند ستاروں کی متعین گردشیں، کس طرح بغیر خالق کے بن جانے کو مان لیتی ہے۔ جب راہ میں پڑی ہوئی مینگنی سے ایک بچہ بھی سمجھ جائے گا کہ اس راہ سے کوئی جانور گزرا ہے یا ایک ایسے کمرہ کو جس کو آپ باہر جاتے ہوئے بےترتیب چھوڑ کر گئے تھے اور لوٹ کر آنے پر اس کو مرتب اور سجا ہوا پاکر لازماً یہ خیال پیدا ہوگا کہ کسی نے اس کو سجایا ہے تو آخر اتنی بڑی سجی سجائی کائنات جس کی حد ہی ہمارے وہم و گمان سے باہر ہے اس کو سجانے والا کوئی نہ کوئی تو ہوگا؟ اور جب یہ مادی اور حسی کائنات بھی ہمارے فہم اور عقل سے بالابالا ہے کہ اس کے فاصلے ناپنے کے لیے ہمارے پیمانے ناکافی ہیں تو پھر اللہ رب العزت کی ذات کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟
ایک اور روایت کے مطابق جب شیطان انسان کو اس قسم کے سوالات میں الجھائے تو انسان کو اسی وقت اپنے رب کی پناہ طلب کرنی چاہیے یعنی اعوذ باللہ من الشیطان لرجیم پڑھ لینا چاہیے اور اس کے ساتھ سوال جواب کے سلسلے  کو ختم کر دینا چاہیے.
http://www.jamiaqasmia-darululoom-shahi.com/

مجلس شوریٰ


نماز ........... الله کی رضا بھی طبی فوائد بھی


نداے شاھی - قناعت کیا ہے ؟